میرے والد محترم حمید گُل صاحب کی کہانی میری زبانی
"میں کیوں والدیں بہن بھائی چھوڑ کر خداوند یسوع مسیح ناصری کے قدموں میں آگیا"
میرے والد محترم کا نام گل حمید خان ولد میجر حیات خان ہے ۔۔ آپ آرمی میں قابل عزت و باوقار دلیر آفسر تھے اور آپکی پوسٹنگ کوئٹہ میں کمیشن افیسر آرمی کے طور پر تھی آپ بتاتے تھے
اکثر میں کوئٹہ مشن ہسپتال کے پاس سے گزرتے وقت ہسپتال پر لکھی ہوئی ایک آیت جو انجیل جلیل س تھی دیکھتا تھا جو یہ تھا
دیکھو میں دنیا کے آخر تک تمہارے ساتھ ہو
(قول خداوند یسوع مسیح ناصری)
اس آیت شریفہ کو دیکھتے ہی میری آنکھِیں اس پر ٹک جاتی اور میں گہری سوچوں کے سمندر میں غرق رہتا کہ اس آیت کے ساتھ حضرت عیسی کا نام مندرج ہے کہ آپ نے یہ فرمایا۔۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے
صرف ایک نبی جوکہ تمام انبیاء کرام کی ماند انسان ہے تو پھر ایسا دعوی کیوں اور کیسے کرسکتا یے
کہ (میں دنیا کے آخر تک تمہارے ساتھ ہو ) جبکہ یہ دعوی تو صرف اللہ تبارک و تعالی کی زات مبارک ہی کرسکتی ہے میں اسی آیت پر اکثر سوچتا اور یہ آیت کبھی میری سمجھ میں نہ آئی۔ یہ آیت میرے دل میں گھر کرگئ اور میرے ذہن نشین ہوگئ
اسکے بعد اسی مشن ہسپتال میں ایک پادری صاحب بنام علامہ پادری غلام مسیح نعمان صاحب تھے
( آپکی گواہی ہم پہلے پیش کرچکے ہیں)
جوخود بھی آرمی ائیر فورس میں ملازمت کر چکے تھے اور جب مجھے معلوم ہوا کہ پادری صاحب بھی آرمی سے تھے تو ہماری گفتگو کا سلسلہ بڑھا اور
پادری غلام مسیح صاحب نے مجھے اپنے گھر گفتگو اور کھانے کی دعوت کے لئے مدعو کیا
جب میں علامہ غلام مسیح صاحب کے گھر گیا اور علامہ غلام مسیح صاحب نے اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ میں مسلمان تھا اور میں مسیحی لوگوں کی محبت سے بہت متاثر ہوا تب میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں حق متلاشی کی طرح تحقیق کرونگا اور بعد از تحقیق میں نے پایا کہ خداوند یسوع مسیح ہی حقیقی نجات دہندہ یے اور جو مسیحیوں میں محبت ہم دیکھتے یے وہ خداوند یسوع مسیح کے احکامات سے یے اس طرح میں نے اسلام کا کو ترک کر کے ہمیشہ کے لئے خداوند یسوع مسیح ناصری کے مقدس قدموں میں سر تسلیم خم کردیا اور اب میں مسیحی ہوں۔۔
پادری غلام مسیح کی یہ بات سُن کر تو جیسے میرا دل شکنجہ میں آگیا اور اب میرا پادری صاحب کے ساتھ گفتگو کرنے کا بھی بلکل ارادہ نہ تھا اب میں واپس جانا چاہتا تھا مگر پادری صاحب مجھے بارہا کھانے کی پیشکش کرتے رہے ۔۔ لیکن میں کٹر مسلمان ہوتے ہوئے ایک مسیحی کے گھر سے کیسے کھانا کھا سکتا تھا خیر پادری صاحب کے بے حد اصرار پر میں نے ایک شرط پر کھانا کھانے کی حامی بھری کہ اگر کھانا باہر ہوٹل سے آئے گا تو کھاونگا ورنہ نہیں۔
گفتگو کے بعد علامہ غلام مسیح صاحب نے مجھے بائبل مقدس تحفہ میں دینا چاہی لیکن میں نے اُسے قبول نہ کیا
آسکے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا اور کچھ عرصہ کے بعد علامہ غلام صاحب نے مجھے چرچ آنے کی دعوت دی اور وہاں انہوں نے دوبارہ کتاب مقدس دی اور مطالعہ کرنے کو کہا
مگر میرے لئے فوجی بیرک میں بائبل مقدس کا مطالعہ آسان نہ تھا کیونکہ میرے ساتھ میرے مسلمان دوست ہوا کرتے تھے
مزید علامہ غلام مسیح صاحب سے ملاقاتوں کے بعد انکی گفتگو سے میرے دل میں جستجو حق اور شعور پیدا ہوچکا تھا اور میں حق متلاشی بن چکا تھا اور میں نے پُختہ اردہ کرلیا کہ اب میں کتاب مقدس کا مطالعہ لازمی کرونگا ۔۔چونکہ فوجی بیرک میں کتاب مقدس کا مطالعہ میرے لئے مشکل تھا اس لئے میں پہاڑوں میں دریا کے کنارے جاکر چھپ چھپ کر کلام مقدس کا مطالعہ کرتا تھا اور واپس بریک میں آکر کتاب مقدس کو میں لپیٹ کر جوتوں کے خالی ڈبے میں چھپا دیا کرتے
اسی دوران ایک واقع پیش آیا جس نے میرے دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میری پوری زندگی کا رُخ بدل گیا بلکہ اسی واقع کے بعد میں خداوند یسوع مسیح اور کتاب مقدس کے اور قریب ہوگیا
یہ واقع کچھ یُوں ہوا کہ مشن ہسپتال کے پاس روڑ پر ایک حادثہ (ایکسڈینٹ) پیش آیا جس سے ایک چھوٹی بچی جسکا تعلق مسلمان گھرانے سے تھا بہت زخمی ہوئی اور یہ بچی مشن اسکول کی طالب علم بھی تھی۔ اس بچی کو اسی مشن ہسپتال لیں جایا گیا جب ڈاکٹرز حضرات نے اس بچی کو خون میں لت پت دیکھا تو کہا اس بچی کو خون کی اشد ضرورت ہے ورگنہ اس بچی کا بچنا نا ممکن یے
بچی کا بلڈ گروپ اُو نیگٹیو (O Negative) تھا جوکہ وہاں ہسپتال میں موجود لوگوں یعنی ہسپتال کا عملہ اور بچی کا خاندان ان میں کسی کا بلڈ گروپ O Negative نہیں تھا
صرف ایک غیر ملکی بزرگ مسیحی مشنری سسٹر کا تھی جنکا بلڈ گروپ O Negative تھا ۔
وہی تھا. خداوند یسوع مسیح کی اس دلیر خادمہ نے جو خداوند یسوع مسیح کی محبت سے لبریز تھی کہا
اس بچی کو میرا خون لگاو مگر ڈاکٹرز نے کہا سسٹر جی اگر آپکا خون لگایا تو آپکی جان بھی جاسکتی ہے کیونکہ آپ کافی عمر رسیدہ ہے ۔ مگر مسیحی بزرگ سسٹر نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔ جب میں گناہوں میں مر رہی تھی تو میرے خداوند یسوع مسیح نے میرے لئے اپنی جان دے کر میری زندگی بچائی تو میں اس
میں نے اس خاتون سے پوچھا کے کیا آپ کا اس لڑکی سے کوئی رشتہ ہے، انہوں نے کہا نہیں، میں نے پوچھا کے کیا آپ کے مسلک کی ہیں، انہوں نے کہا نہیں یہ بچی مسلمان ہے اور میں مسیحی ہوں. میں بہت حیران ہوا اور کہا کے آپ کیوں اپنی جان خطرے میں ڈال رہی ہیں جبکہ کوئی خاص وجہ نہیں ہے. اس مہربان خاتون کا جواب یہ تھا کے میں بھی یسوع مسیح ناصری کی دشمن تھی گناہ کی وجہ سے اور اس نے میرے لئے جان دی، تو کیا میری زندگی اس لڑکی جو اس اسکول کی سب سے زہین بچی ہے، اس کے کام آ جائے تو اچھا نہ ہوگا؟ یہ جواب سن کر میں دنگ رہ گیا کے یہ کیسا ایمان ہے، یہ کیسی محبّت ہے؟بچی کی زندگی کیوں نہیں بچا سکتی؟
ڈاکٹرز نے کہا ہمیں لکھ کردیجئے تانہ ہو بعد میں کوئی حادثہ پیش آئیں بزرگ سسٹر نے ہستے ہستے لکھ کر دیا اور اپنا خون اس مسلم بچی کے لئے پیش کیا۔ ڈاکٹرز جب آپریشن تھیٹر میں بزرگ سسٹر کا خون بچی کو لگارہئے تھے تو دیکھا کہ ایک طرف تو بچی ہوش میں آرہی یے مگر جب پلٹ کر دیکھا تو بزرگ سسٹر اپنے خداوند مسیح یسوع میں سوگئ تھی
مسسیحی بزرگ سسٹر اب اپنے خالق حقیقی سے جاملی تھی جنکی محبت میں انہوں نے اس مسلم بچی کے لئے اپنا خون پیش کیا تھا
یہ سارا واقع جب میں نے آپنی آنکھوں سے دیکھا تو میرے پاُوں تلے سے زمین نکل گئ اور میں ہکا بکا رہ گیا اور سوچنے لگا یہ مسیحی لوگ کیسے ہیں۔
اس مسلمان بچی سے انکا کیا رشتہ ہیں ؟ نہ تو یہ بچی انکے مزہب مسیحیت کی ہے بلکہ مسلمان ہے ۔پھر بھی اُس مسیحی بزرگ سسٹر نے ایک مسلمان بچی کے لئے اپنی جان دی جبکہ وہ جانتی تھی کہ میں مر سکتی ہو ۔۔ یہ مسیحی لوگ کیوں غیر اقوام سے اتنا پیار کرتے ہیں بیماروں اور محتاجوں کا اتنا خیال کیوں رکھتے یے جبکہ ہم مسلمان تو ان مسیحیوں کے گھر کھانا کھانا بھی پسند نہیں کرتے انکے برتن میں پانی پینا پسند نہیں کرتے
گل حمید خان صاحب اسکے بعد گھر واپس آے اور بائبل مقدس کھول کر پڑھنے لگئے اور انکے سامنے یہ آیت آئی لکھا ہے خداوند یسوع مسیح نے فرمایا کہ راہ حق اور زندگی میں ہو اور جو مسیح میں مر بھی جائے تو بھی ہمیشہ زندہ رہئے گا اور یہ کہ جب تم اپنی جان کو خداوند یسوع مسیح کے لئے کھوتے ہو تو دراصل اسکو پاتے ہو یہ پڑھنے کے بعد حمید گل صاحب کو سمجھ میں آیا کہ اُس مسیحی بزرگ سسٹر نے اپنی جان کھوئی نہیں بلکہ مسلمان بچی کو بھی بچایا اور اپنی جان بھی بچائی تاکہ وہ ابدتک خداوند یسوع مسیح کے ساتھ ابدی سکونت کریں جیساکہ خداوند یسوع مسیح نے فرمایا یے
اسکے واقع کے بعد گل حمید خان صاحب علامہ غلام صاحب سے ملے اور کہا کہ میں خداوند یسوع مسیح کے قدموں میں آنا چاہتا ہو اصطباغ لینا چاہتا ہو تو مجھے کیا کرنا ہوگا ؟ علامہ غلام مسیح صاحب کا جواب تھا آپکو کتاب مقدس پر ایمان لانا ہوگا اور خداوند یسوع مسیح کو اپنا شخصی نجات دہندہ قبول کرنا ہوگا اور ایمان رکھنا ہوگا کہ خداوند یسوع مسیح نے آپکے گناہوں کی خاطر آپکو بچانے کے لئے صلیب پر جان دی ہے جس طرح اُس مسیحی بزرگ عورت نے مسلمان بچی کو بچانے کے لئے اپنی جان دی اسکے بعد حمید گل صاحب کو بپتسمہ دیا گیا یہ بات چھپنے والی نہیں تھی جیسے ہی فوجی بیرک میں اسکی خبر ہوئی تو فوجی افسران نے حمید گل صاحب کو مسیحی ہونے پر کورٹ مارشل کرکہ انکو فوج کی ملازمت سے نکال دیا گیا
اسی طرح حمید گل صاحب کے بہن بھائیوں والدین نے بھی ان سے منہ موڑ لیا اور آپکو گھر سے بھی بے گھر کر دیا۔ یہ کہہ کر کہ تم اب کافر ہوگئے ہو تم ہمارے ساتھ نہیں رئے سکتے اسکے بعد حمید گل صاحب نے ایک چھوٹی سی دوکان پر ملازمت اختیار کرلئ جہاں وہ صرف ایک مزدور کی حثیت سے کام کرتے تھے اور سارا دن کام کے بعد جب آپکے ہاتھوں میں چھالے پڑجاتے تو مشن ہسپتال کے ڈاکٹرز آپکو معلم لگاتے تاکہ صبع کام کے لئے آپکو آسانی ہو اور درد سے کچھ راحت ملیں۔۔ مگر حمید گُل صاحب نے ساری تکلیف و پریشانی مسکراتے ہوئے گزارئی کیونکہ آپ کو حقیقی خدا مل گیا تھا اور آپ نے اپنی آخرت سوار لئ تھی
دوکان پر ملازمت کے دوران ایک مرتبہ امام مسجد نے آپکو علامہ غلام مسیح کے ساتھ دیکھا تو کہا تم اس شخص کے ساتھ کیا کررہئے ہوں یہ آدمی لوگوں کو مرتد بناتا ہے کافر بناتا ہے مگر گُل حمید صاحب نے امام مسجد سے کہا کہ میں اپنی مرضی سے مسیحی ہوچکاہو۔ یہ سُنتے ہی امام مسجد شدید غصے سے بھر گئے اور آپ سے کہا کہ تمہارے پاس تین دن کی مہلت ہے تین دن میں دوبارہ اسلام قبول کرو اور اس غلام مسیح سے دوستی ختم کردو ورگنہ تم جانتے ہو کہ اسلام میں مرتد کی سزا صرف و صرف موت ہے امام مسجد کا یہ کہنا تھا تو ایک مرتبہ پھر حمید گل صاحب نے اپنے ایمان کا اقرار کرتے ہوئے کہا میں نے میں نے دل روح جان بدن خداوند یسوع مسیح کے قدموں میں رکھ دی اب جو ہو سو ہو
تین دن گُزرنے ہی تھے کہ بعد از نماز جمعہ امام مسجد نے آپکو مُرتد قرار دے کر آپکے قتل کا فتوی دیا اسکے بعد مسلمانوں کی ایک بھیڑ آپکے قتل کے ارادے سے لاٹھیاں اور تلواریں لیں کر نکل آئی مگر جس کو خداوند یسوع مسیح نے چُنا تھا انکو کیسے کوئی زر پہنچاسکتا تھا آپ جس دوکان پر مزدوری کرتے تھے اُس کے مالک کے دل میں خداوند یسوع مسیح نے رحم ڈالا اور اُس نے آپکی بھاگنے میں مدد کی حالانکہ وہ بھی مسلمان ہی تھا
اسکے بعد آپ ڈھاکہ چلیں گئے اور پھر آپکو ڈھاکہ سے بھی واپس آنا پڑا کیونکہ وہ سن ١٩٧١ تھا اور بنگالی کسی بھی پٹھان پنجابی کو ڈھاکہ میں دیکھتے تو قتل کردیتے آپ واپس آکر کوئٹہ تو جا نہیں سکتے تھے لہزا آپ لاہور شہر پہنچے اور وہاں پادری ایڈگر خان، نولکھا چرچ لاہور جو خود بھی اسلام کو خیر باد کہہ کر خداوند یسوع مسیح کے قدموں میں آئیں تھے انہوں نے آپکی مدد کی آپکو رہنے کے لئے گھر اور نوکری دلوائی آپ اُنہی کے ساتھ خداوند یسوع مسیح کی خدمت بھی کرتے اب لاہور جیسا آپکا گھر. ہوگیا تھا لاہور میں ہی آپکو خداوند سے نیک سیرت خاتون بیوی ملی جو خدا کی طرف سے تحفہ تھی اسکے بعد خداوند نے آپکو اولاد جیسی نعمت سے بھی نوازہ آپکے بیٹا ہوا جسکا نام آپ نے تحسین گُل خان رکھا اور حمید گل صاحب اور آپکی اہلیہ نے خداوند سے عہد کیا کہ یہ لڑکا ہم خداوند مسیح کی نظر کرتے یے یہ لڑکا مبشر انجیل ہوگا اور بہت سے لوگوں کو خداوند یسوع مسیح کے قدموں میں لانے کا باعث ٹھہرئے گا
آج یہ وہی علامہ پادری تحسین گل صاحب ہے جو کسی تعرف کے محتاج نہیں آپکو امریکا یوکے یورپ انڈیا و پاکستان میں بہتیرے لوگ جانتے یے اور آپکے مدعا ہے آپ خداوند مسیح سے کئے گئے اپنے والدین کے وعدہ کے مطابق خداوند یسوع مسیح کی خدمت مصروف عمل یے
تشکر علامہ پادری تحسین گُل خان از یوکے
ایڈمن المسیح کے ایلچی
Thanks Page: Al-Masih Kay Ailchee for this.
No comments:
Post a Comment